ریڈیو کاعالمی دن اور ریڈیو پاکستان کا گلا گھونٹنے کے حکومتی اقدامات
گلوبل پنِڈ ( محمد نواز طاہر )دنیا بھر میں تیرہ فروری کوریڈیا کا عالمی دن منایا گیا ۔ یہ منانے کا فیصلہ اسی عشرے میں یونیسکو نے سپین کی تحریری تجویز پر کیا تھا ۔ سپین ان ملکوں میں نہیں جسے ترقی پذیر ملک کہا جائے یا جہاں ٹیکنالوجی ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی قسمت کی طرح سست ہے۔ سپین نے یونیسکو کو ریڈیو کا دن منانے کی تجویز سنہ دو ہزار دس میں دی تھی جس پر فیصلہ ایک سال کے بعد کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ سپین نے ریڈیو ڈے منانے کی ضرورت محسوس کیوں کی ؟ سادہ سا جواب ہے کہ سپین بھی ان ملکوں میں شامل ہے جس نے قوم میں شعور اور آگھی کیلئے ریڈیو کا بھر پور استعمال کیا اور ریڈیو کی اس خدمت کے اعتراف میں اسے ہمیشہ زندہ رکھنا ضروری قراردیا ۔ تیز ترین ترقی کے دور میں عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگ یہ تک ب نہ جانتے ہوں کہ ریڈیو کا کوئی کردار بھی ہے ، ریڈیو کو زندہ رکھنے میں موبائل فون کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں صرف ایف ایم ریڈیو سنا جاسکتا ہے ، ایف ریڈیو کی نشریات ،کوالٹی اور رسائی پر تو گفتگو ہوسکتی ہے اوراس میں ناپسندیدہ بہو کی طرح بہت سے کیڑے بھی نکالے جاسکتے ہیں لیکن اس کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ، گو یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ایف ریڈیو نشریاتی کوالٹی کے اعتبا ر سے اے ایم ریڈیو کا مقابلہ کسی صورت نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے ۔ اس لئے سپین کی سوچ قابلِ تعریف ہے جس نے ریڈیو کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا ہے ۔ آج بھی پوری دنیا میں ریڈیو اطلااعات کی فراہمی کا تیز ترین ذریعہ ہے ۔
پاکستان میں ایف ایم ریڈیو نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے ایف ایم 100 پہلا ریڈیو چینل ہے ، جس کی نشریات تئیس مارچ انیس سو پچانوے میں شروع ہوئی تھیں ۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے ایف ایم ریڈیو چینل کہا جائے یا السلام علیکم پاکستان کہا جائے کیونکہ اس کے نعرہ ہی السلام علیکم پاکستان رکھا گیا تھا اور تعصب کے بغیر کہا جائے تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ سامعین کی بڑی تعداد کو صحیح تلفظ کے ساتھ اور ایک سے زائد صوتی جہتوں میں السلام علیکم کہنے کی پریکٹس بھی کروادی بعد میں ایف اییم 101نے بھی اپنی جگہ بنائی لیکن وہ السلام علیکم پاکستان کی جگہ نہ لے سکا ۔ نجی شعبے میں پہلا نیوز بلیٹن شروع کرنے کا اعزاز مست ایف ایم 103سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ یہ ایف ایم ریڈیو کی پاکستان میں مقبولیت میں اضافے میں اہم پیش رفت تھی ، اس کی کاپی بعد میں دیگر ریڈیو چینلز نے بھی کی۔اب سرکاری او غیر سرکاری متعدد ایف ایم چینل دن رات چل رہے ہیں۔ ایف ایم چینل سے لوگوں کو ٹیلیویژن کی مقبولیت اور ڈیش انٹینا یا کیبل کے باعث غیر ملکی چینلز پر بڑھنے والی توجہ کی وجہ سے کم و بیش بھلا دیا جانے والا ریڈیو عوام کو دبارہ یاد دلا دیا حالانکہ ریڈیو پاکسان کو غیر ضروری خیال کرنے میں پاکستان کی حکومت نے پہل کی جس نے اسے عملی طور پر لفٹ کوانا بند کردی تھی ، جس کی تصدیق میاں نوازشریف کی بحیثیت وزیر اعظم میڈیا ٹاک کیلئے جاتی امراء یا ماڈل ٹاؤن سے جاری ہونے والے دعوت ناموں کا ریکارڈ کردے گا ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نوازشریف کے دو ر میں ان کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے پاکستان میں نئے ریڈیو سٹیشن کا اففتتاح بھی کیا ، اس سے پہلے پہلی خاتون ویر اعظم بینظیر بھٹو بھی یہ فریضہ انجام دے چکی تھیں لیکن ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ریڈیو پاکستان کی میڈیم ویوز کی نشریات بند کردی گئی تھیں جو شدید عوامی ردِ عمل کے نتیجے میں بحال کی گئیں ، نوازشریف کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک اہم ٹراسمیشن سنٹر ( مناواں) کی زمین پر دھونس سے قبضہ کرلیا گیا قابلِ ذکر بات یہ ہے اس اسٹیشن پر بھارتی افواج نے سنہ انیس سو پنیسٹھ میں قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جو ریڈیو کے عملے نے جان پر کھیل کر ناکام بنادی تھی مگر اپنی حکومت کا وار کوئی بھی ناکام نہ بنا سکا بلکہ کچھ لوگ تو حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے ’ سہولت کا ر‘ بھی بن گئے تھے ۔ یہ ٹرانسمیشن سنٹر بھارت میں پاکستانی نشریات کی فراہمی ذریعہ تھا اور بھارت میں اس کی سامعین کی بہت بڑی تعداد تھی ۔
جب برصغیر میں ایک نجی کمپنی نے بمبئے سے انیس سو ستائیس میں ریڈیو کی نشریات کا آغا زکیا تو اس کا اگلا اسٹیشن اگلے برس ہی لاہور میں بنایا گیا تھا، اس کے بعد پشاور سنٹر کی باری آئی تھی ۔ یہی دو اسٹیشن ہیں جہاں سے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی تاریخی خوشخبری سنائی گئی تھی ان الفاظ کے ساتھ
’’السلام علیکم پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔تیرا اور چودہ اگست ، سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ
بجے ہیں۔ طلوع صبح آزادی۔۔۔ ‘‘ سنائی گئی ۔ یہ الفاظ مصطفیٰ علی ہمدانی کو ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ یہی اعلان پشاور ریڈیو سے پشتو میں کیا گیا تھا ۔
ریڈیو پاکسان نے منذہبی خدمات ، دفاعِ وطن، قومی یکجہتی ، فروغِ تعلیم ، فنونِ لطیفہ اور آگہی کے لئے کیا کردار ادا کیا، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، یہ کردار حکمرانوں کو پسند کیوں نہیں آیا ، اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں ، سامعین اور پاکستان کے عوام کیلئے تشویش کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت میڈیم ویوز کی نشریات بند کرکے صرف اور صرف ایف ایم ٹرانسمیشن کی خواہش رکھتی ہے اور اپنے طور پر اصولی فصلہ بھی کرچکی ہے جس کا اظہار اس کے ذمہ دار افراد خود کرچکے ہیں جبکہ غور طلب اور تکنیکی بات یہ ہے کہ ایف ایم کی فریکؤئسی انتہائی محدود ہے اس سے نے صرف پاکستانی بلکہ سرحد پار بھار ت کے بھی بڑی تعداد میں وہ سامعین بھی ریڈیو پاکستان کی نشریات سے محروم ہوجائیں گے جو کم و بیش ایک صدی سے نسل درنسل عقیدتاً یہ نشریات سنتے آرہے ہیں ۔ ان میں پنجابی دربار قابلِ ذکر ہے، اسی طرح ’فوجی بھائیوں کا پروگرام‘ بھی دور دراز علاقوں اور سرحدوں نہیں پہنچ سکے گا جبکہ فوجیوں کی بڑی تعداد ریڈیو پاکستان نے صرف سنتیہے بلکہ فرمائشیں بھی کرتی ہے ۔ یہ نشریات نہ ملنے سے دوردراز سرحدوں پر جہاں عموماً موبائل فون کے سگنلز نہ ہونے کے برابر، مفلوج یا بالکل ہی نہیں ہیں ک، وہاں فرائض انجام دینے والے فوجی بھی ان نشریات سے محروم ہوجائیں گے ۔
ایک طرف حکومتی مخالفین موجودہ حکومت پر الزام دیتے ہیں کہ حقیقی اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس نہیں بلکہ عسکری قوتوں کے پاس ہے تو دوسری جانب اسی اہم ادارے کے لوگوں سے اطلاعات اور تفریح کا یہ واحد زریعہ چھیننے کی سوچ عجیب سی لگتی ہے ؟ عوام کی بات تو کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ بات تو شائد سبھی سمجھتے ہیں او ر بہتر انداز میں سمجھتے ہیں ۔ ک
ریڈیو کا گلہ دبانا کیوں ضروری ہے ؟َ یہ کس کی خواہش ہے ؟ کیوں ہے ؟ جبکہ بھارت سرحد کے بہت قریب اپنے ٹراسمیٹر نصب کررہا ہے تاکہ بھارتی ریڈیو کی نشریات آسانی سے سنی جاسکیں کیا بھارتی ریڈیو کی نشریات کو فوقیت دینا مقصود ہے اور اس کیلئے ریڈیو پاکستان کی نشریات کی قربانی ضروری ہے ۔۔؟
جب پوری دنیا ریڈیو کا عالمی دن مناتی ہے تو ہم بھی علامتی طور پر اس کا حصہ ہونے کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ سپین نے کتنی گہری سوچ اور ادراک سے ریڈیو کا عالمی دن منانے کی تجویز دی اور عالمی برادری نے بھی اسے اہم ترین قراردیا ۔
(نوٹ !ریڈیو سے نصف صدی سے زائد سمعی اور بیس برس سے زائد قلمی و صوتی وابستگی اس ادارے کے بارے میں حکمرانوں کی سوچ تڑپا کردکھ دیتی ہے ، جانے کتنے لوگ ہیں جو میرے جیسی کیفیت کا شکا ر ہیں لیکن اظہار سے قاصر ہیں ، ان کی یہ مجبوری اور بے بسی پاکستان کے ہر شہری کو آواز بلند کرنے کی منتظر ہے ۔)