اسلام آباد: ڈیجیٹل مالیاتی شمولیت کے ذریعے پسماندہ طبقات کو قومی دھارے میں شامل کرتے ہوٸے انکی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لاٸی جا سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار بینکنگ رہنماؤں اور معاشی ماہرین نے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ڈیوس میں قاٸم کیے گٸے پاکستان پویلین میں منعقد کیے گٸے مباحثے میں کیا۔
پاکستان میں مالیاتی شمولیت اور اس ضمن میں ڈیجیٹل ذراٸع کی اہمیت کے حوالے سے منعقدہ مباحثے کا انعقاد کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (کےسی ایف آر) نے سوئس ایشین چیمبر آف کامرس(ایس اے سی سی) کے تعاون سے کیا تھا۔ مباحثے میںمررین کے پینل میں بنکنگ شعبے سے وابستہ معروف ماہرین بشمول ظفر مسعود، صدر بینک آف پنجاب، شہزاد دادا، صدر یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، کبیر نقوی، صدر یو مائیکرو فنانس بینک (یو بینک)، سلمان علی، سی ای او وی آر جی، رسک ایسوسی ایٹس کے آفتاب رضوی اور سی ای او فٹافٹ عماد چشتی نے شرکت کی۔ مباحثے کی نظامت علی شاہ، آٸی پاتھ کےسی ای او نے سر انجام دی۔ متعدد ممکنہ سرمایہ کاروں اور معاشی ماہرین کی ایک بڑی تعداد حاضرینمیں میں موجود تھی۔
کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (کے سی ایف آر) اور پاتھ فائنڈر گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین اکرام سہگل نے مباحثے کے شرکا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس۔موقع پر اکرام سہگل نے اپنی ٹیم کی جانب سے عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج ابھارنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا۔ سہگل نے اس موقع پر ان تمام افراد اور اداروں کا شکریہ ادا کیا جنھوں مےمالی۔او اخلاقی سطح ان کی جدوجہد میں تعاون کیا۔ پینل ڈسکشن کے موضوع پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے، کے سی ایف آر کے چیٸرمین کا کہنا تھا کہ “مین سٹریمبنکنگ استعمالنہ۔کرنے والے افراد کو بنکنگ کی جانب ماٸل۔کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس امر میں کامیابی پاکستان میں معاشی استحکام کے حوالے سے انتہاٸی کارآمد ثابت ہو گی”۔ انکامزید کہنا تھا کہ کہ معاشرے کے غریب ترین افراد کو بینکنگ کے مرکزی دھارے میں لانا بہت اہم ہے اور مالیاتی شمولیت میں ڈیجیٹل سروسز کے مناسب استعمال کے ذریعے اس میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوٸے دی بنکآف پنجاب کے سربراہ ظفر مسعود نے پاکستان میں بینکنگ سیکٹر کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوٸے کہا کہ کٸی بڑے چیلنجز کے باوجود پاکستان معاشی طور پر متعدد کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ ہے۔ ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان ترقیاتی اہداف کے لیے پرعزم ہے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف سمیت قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی اہداف کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھاٸے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر پنجاب بنک کے صدر نے ہاکساتن کے مالیاتی شعبے کو درپیش متعدد مشکلات کی بھی نشاندہی کی۔ ظفر مسعود پاکستان کی آبادی کے حوالے سے اعدادو شمار کا زکر کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان کی 61 فیصد آبادی 15 سے 54 سال کے درمیان ہے جو کہ بینکنگ سروسز استعمال کرنے کے لیے موزوں ترین طبقہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مالیاتی شمولیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوٸے ان کا کہنا تھا کہ “ڈیجیٹل سپورٹ کے بغیر حقیقی مالی شمولیت کا استعمال تقریباً ناممکن ہے”۔ ظفر مسعود نے کہا کہ انکاادارہ بینکنگ استعمال نہ کرنے والے افراد کو قومی بینکاری کے دھارے میں لانے کے لیے مختلف انقلابی اقدامات کر رہا ہے۔ خواتین کی بینکنگ کے استعمال میں انتہاٸی کم تعداد پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوٸے انکاکہنا تھا کہ کل آبادی کا 51 فیصد ہونے کے باوجود صرف 17 فیصد خواتین بینکنگ سروسز استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کے اتنے بڑے اور اہم طبقے کو صرف ڈیجیٹلائزڈ مالیاتی شمولیت کے ذریعے ہی بینکنگ کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس موقع پر یوناٸیٹڈ بنک لمیٹڈ کے صدر شہزاد دادا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور ملکی حالات سرمایہ کاری کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔ پاکستان میں مالی شمولیت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روایتی بینکنگ سروسز کے استعمال میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ بینکوں تک رسائی ہے کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے لہذا بینکوں تک رساٸی ایک اہم۔مسلہ ہے۔ دادا کا کہناتھا کہ پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 10 بینک برانچیں ہیں جب کہ ایشیا میں یہ شرح 16 کے قریب ہے، ایسی صورت حال میں مالیاتی شمولیت بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب ڈیجیٹل وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
مالیاتی شمولیت میں ڈیجیٹل خدمات کی اہمیت پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، یو بینک کے صدر کبیر نقوی نے سامعین کے ساتھ کچھ زمینی حقائق شیٸر کیے۔ ان کے مطابق، صارفین اور ان کی ضروریات کو سمجھنا مؤثر مالیاتی شمولیت کے سیٹ اپ کے لیے سے سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔ انہوں نے یو بینک کی جانب سے دور دراز رلاقوں میں برانچوں کے قیام کے ذریعے دیہی آبادی تک رسائی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کازکر کرتے ہوٸے بتایا کہ ان دوردراز برانچوں میں یوبینک کا عملہ مالی شمولیت اور ڈیجیٹل وسائل کے استعمال کے بارے میں صارفین کو براہ راست تربیت اور آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
مباحثے میں وی آر جی کے سی ای او سلمان علی نے مالیاتی شمولیت کے حوالے سے ایک بالکل مختلف نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان میں 192 ملین لوگ موباٸل فون استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے اکتالیس فیصد کے پاس سمارٹ فون ہیں جبکہ باقی لوگ عام فیچر فون استعمال کرتے ہیں جس میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ سلمان علی کاکہنا تھا کہ فیچر فون استعمال کرنے والے یہ لوگ درحقیقت بنکنگ سے دور ہیں اور ان کے لیے مالیاتی شمولیت انتہاٸی اہمیت کی حامل ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکی کمپنی اس ضمن میں کام کر رہی ہے اور فیچر فون استعمال کرنے والے صارفین کو یو ایس ایس ڈی کوڈ کے زریعے منٹوں میں کسی بھی بڑے بینک میں اکاٶنٹ کھولنے کی سہولت فراہم کر رہی ہے جس کے لیے انٹرنیٹ یا سمارٹ فون کی کوٸی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس موقع پر رسک ایسوسی ایٹس کے آفتاب رضوی، سی ای او فٹا فٹ عماد چشتی اور ممبر بنک آف پنجاب آصف ریاض نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔۔۔۔