انداز بیاں گرچہ کچھ شوخ نہیں
شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات
کیا ابلاغ کے اس جدید دور میں ریڈیو ایک Dying Medium ہے
کیا ریڈیو پاکستان کے پاس کسی بھی دشمن کی صوتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے وسائل موجود ھیں
کیا ریڈیو پاکستان کو خسارے سے نکالنے کے لیے اس کے ملازمین کی تعداد میں کمی اس کی زمینوں کی فروخت اور ریڈیو پاکستان کو ایک کمرے سے چلانے کی سوچ درست ھے
کیا قومی ادارے کا تحفظ قومی ذمہ داری نہیں
پاکستان میں ریڈیو کی صنعت سے وابستہ افراد کواکثر ایک سوال کا سامنا رہتا ہے کہ ’’ اب ریڈیو کوئی سنتا بھی ہے؟‘‘ کہنے والے یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ ابلاغ کے اس جدید دور میں ریڈیو ایک Dying Medium ہے۔ ماضی میں ریڈیو کا طوطی بولتاتھا اس بات سے تو ہرکوئی متفق ہے۔ لیکن آج پوری دنیا میں ریڈیو جیسے اہم ذریعہ ابلاغ کا پاکستان میں ایسا تاثر کیوں بنتا جا رہا ہے؟ یہ قابلِ غور پہلو ہے۔
جدید ٹیکنالوجی (انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ) نے ریڈیوکی پہنچ اور سامعین کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید کم خرچ کا حامل ذریعہ ابلاغ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں روایتی اور غیر روایتی ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ معاشیات کا اصول ہے کہ جب طلب بڑھتی ہے تو پھر رسد میں بھی اضافہ ہو تا ہے۔ یعنی لوگ ریڈیو سنتے ہیں اور سننا چاہتے ہیں تو ہی ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
انسائیکلو پیڈیا آف دی نیشنز میںسی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے اعداد و شمار سے مرتب کردہ حقائق کے مطابق دنیا میں اس وقت 66 ہزار 5 سو 31 سے زائد ریڈیو اسٹیشنزکام کر رہے ہیں ۔ یعنی دنیا میں اوسطً ایک لاکھ افراد کے لئے ایک ریڈیو اسٹیشن موجود ہے۔ اور ریڈیو کی نشریات دنیا کی 95 فیصدآبادی تک پہنچ رہی ہے۔ اسی طرح دنیا کے اوسطً ہر تیسرے فرد کے پاس ریڈیو سیٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے 22 فیصد ریڈیو اسٹیشنز یورپی یونین کے ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ جبکہ اکیلے امریکا میں دنیا بھر میں موجود ریڈیو اسٹیشنزکا 21 فیصد موجود ہیں۔ یعنی یورپی یونین اور امریکا میں کام کرنے والے ریڈیو اسٹیشنز دنیا بھر کے اسٹیشنز کا 43 فیصد ہیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ ریڈیو اسٹیشنز امریکا میں ہیں ۔ جن کی تعداد 13 ہزار 7 سو 69 سے زائد ہے۔
دنیا میں زیادہ ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد کے حامل پہلے دس ممالک میں تقریباً آدھے ملکوں کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔ اور یہ 10 ممالک امریکا ، اٹلی ، فرانس ، روس ، برازیل ، میکسیکو، ترکی ، فلپائن ، برطانیہ اورپیرو دنیا کے 47 فیصدریڈیو اسٹیشنز کے مالک ہیں ۔ علاوہ ازیںاس وقت دنیا میں ریڈیو سیٹس کی تعداد اڑھائی ارب سے زائد ہے۔ اور امریکا میں سب سے زیادہ ریڈیو سیٹس موجود ہیں جو عالمی تعداد کا 23.4 فیصد ہیں ۔دنیا میں ریڈیو سیٹس کی زیادہ تعداد کے حامل پہلے دس ممالک میںموجود ریڈیو سیٹس کی تعداد ایک ارب 62 کروڑ سے زائد ہے جو عالمی تعداد کا 66.3 فیصد ہیں ۔ ان ممالک میں بھی اکثریت کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔ اور ریڈیو لسننگ کے حوالے سے ایک اکیلے امریکا کی ہی مثال کو لے لیجئے جہاں ریڈیو سامعین کی تعداد 2014 ء میں 24 کروڑ 42 لاکھ تھی ۔ اور ایک امریکی سامع اوسطً روزانہ اڑھائی گھنٹے ریڈیو سنتا ہے ۔
اعداد وشمار کی یہ جھلک اُس دنیا کی ہے۔ جہاں ذرائع ابلاغ کی ہر جدید صورت ناصرف موجود ہے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے لئے دیگر تمام ذرائع/ وسائل بھی دستیاب ہیں۔ یعنی بجلی ہر وقت اور سب کو دستیاب ہے، قوتِ خرید بھی موجود ہے اور خواندگی بھی 100 فیصد ۔ لیکن پھر بھی وہ ریڈیو سے اتنا کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ اس کا واضح جواب اس حقیقت کا ادراک ہے جو ریڈیو کی بطور ذریعہ ابلاغ بے شمار خوبیوں میں پنہاں ہے۔ اور یہی ادراک امریکی صدر کو ہر ہفتہ ریڈیو کے ذریعے ہی امریکی قوم سے خطاب کی روایت کے احیاء اور اسے برقرار رکھنے کا موجب ہے ۔
ریڈیو کی وہ بے شمار خوبیاں جو اس کی لسننگ کی سہولت ، اُس کی پہنچ کی وسعت ، اُس کے کم خرچ ہونے اور اس سے نشر ہونے والے مندرجات کے تنوع سے جڑی ہوئی ہیں اسے اطلاعات، معلومات، مکالمہ اور تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ابلاغ بنا دیتی ہیں۔ اور ترقی پذیر معاشروں میں جہاں بے شمار طبعی ، سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل ابلاغِ عام کی راہ میں حائل ہیں وہاں ریڈیو اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ اُن لوگوں تک پہنچتا ہے جو مسائل کی وجہ سے ترقی کی شاہراہ کے کہیں آخر میں ہیں ۔
ریڈیو کی کثیر الجہت خوبیوں کے اعتراف میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2012 ء کو 13 فروری کے روز کو ریڈیو کے عالمی دن کے طور پر منانے کی منظوری دی ( 13 فروری کی تاریخ کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا کہ 13 فروری 1946ء کو اقوامِ متحدہ کے ریڈیو کا آغاز ہوا) ۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام اور میڈیا میںریڈیو کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنا ، فیصلہ سازوں کو ریڈیو کے ذریعے اطلاعات/ معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اہتمام کے حوالے سے قائل کرنا ، براڈ کاسٹرز کے باہمی روابط اور تعاون کو فروغ دینا ہے ۔
21 ویں صدی کے آغاز سے پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی آمد نے بہت سے لوگوں کوجہاں اپنی جانب متوجہ کیا وہیں پرائیویٹ اور سرکاری ایف ایم ریڈیو اسٹیشنزکے قیام نے اور خاص کر موبائل فونز پر ریڈیو سننے کی اضافی سہولت نے ملک میں ریڈیو لسننگ کو ایک نئی جہت دی ۔ اس وقت ملک میں باضابطہ طور پر کام کرنے والے سرکاری اور نجی ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد 190 ہے جس میں سے 32 ریڈیو اسٹیشنز سرکاری حیثیت سے اور126 نجی شعبے میں کمرشل ایف ایم اسٹیشنز کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ تعلیمی مقاصد کے لئے ملکی جامعات اور دیگر اداروں میں 32 نان کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز بھی متحرک ہیں ۔
82 ریڈیو اسٹیشنز کے ساتھ پنجاب سر فہرست ہے اس کے بعد سندھ 46 کی تعداد کے ساتھ دوسرے ، خیبر پختونخوا میں 25 ، اسلام آباد میں 15 ، بلوچستان میں 10 ، آزاد جموں وکشمیر میں 08 اور گلگت ، بلتستان میں 04 ریڈیو اسٹیشنز Onair ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود کہنے والے بڑی سادگی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب کون ریڈیو سنتا ہے، یہ گئے وقتوں کی بات تھی ۔ ریڈیو کے حوالے سے موجود اس مفروضہ کی بڑی وجہ شاید ملک میں نجی شعبے میں ریڈیو کے تعمیری مقاصد کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے صرف اور صرف تفریحی (موسیقی) مقاصد تک محدود کر دینا تھا ۔
جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ ٹی وی چینلزکو تفریح کے ساتھ ساتھ اطلاعات و معلومات کی ترسیل کی بھی اجازت دی گئی ۔ دوسری طرف سرکاری ریڈیو کافی عرصے سے معاشی گرداب کا شکار ہو کر اپنے ٹرانسمیٹرز کے نشریاتی سگنلز کے معیار اور ہمہ وقت سگنلز کے تسلسل کو برقرارکھنے میں ںمشکلات کا سامنا کر رہا ہے ۔ یوں معاشرے میں اب ایک ایسی فضاء قائم ہو چکی ہے جس میں ریڈیو کے میڈیم کو اُس کی تمام تر خوبیوں کے باوجود نظرانداز کیا جانے لگا ہے ۔ جبکہ ملک کے کئی ایک زمینی حقائق اس پہلو کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی ریڈیو ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہو سکتا ہے۔
کیونکہ بجلی سے محروم ملک کی 5 کروڑ 40 لاکھ آبادی اور طویل لوڈشیڈنگ کا شکار ملک کی دیگر آبادی سے ابلاغ ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ملک کے 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 40 فیصد ناخواندہ افراد سے رابطہ کا اہم ذریعہ صرف ریڈیو ہی ہے ۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے دو ڈالر روزانہ سے کم آمدن کے حامل غربت کے مارے 60 فیصد پاکستانیوں سے تعلق ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں رونما ہونے والے حادثات اور قدرتی آفات میں ریڈیو کا کردار تو آفاقی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے ۔
ریڈیو کی اہمیت اور افادیت سے چشم پوشی کی ایک اور بنیادی وجہ ملک میں ریڈیو سامعین کے بارے میں مصدقہ اعداد وشمار کا گزشتہ کئی سالوں سے متعلقہ فورمز پر مناسب انداز میں پیش نہ ہونے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر طور پر عوامی اور مارکیٹنگ تشہیر نہ ہو سکنے کے باعث آج ملک میں ریڈیو اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اسے برملا Dying Medium کہا جانے لگا ہے ۔
اکثر ریڈیو کی لسننگ کے بارے میں سوالات اٹھانے والے چونکہ خود ریڈیو نہیں سنتے اس لئے انھوں نے خود ساختہ طور پر یہ خیال کر لیا ہے کہ ملک میں ریڈیو کوئی سنتا ہی نہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اُن اعداد وشمار اور رجحانات کو ایک مربوط حکمت عملی کے تحت سامنے لایا جائے تاکہ ملک میں ریڈیو کی مسّلمہ اہمیت اور افادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے میڈیا کے اس شعبے کو نظر انداز کئے جانے والے طرزعمل کو ہر سطح پر بدلا جاسکے۔
اس بارے میں پہلا حوالہ 1998ء میں ہونے والی پاکستان کی پانچویں مردم شماری کے وہ اعدادوشمار ہیں جو ملک میں پرائیویٹ سیکٹر میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے قبل ملک میں ریڈیو لسننگ کے رجحانات پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 23.94 فیصد گھرانوں ںمیں ریڈیو کو بطور Source of Information استعمال کیا جاتا تھا ۔ یعنی پاکستان کے 45 لاکھ 99 ہزار2 سو 90 گھرانوں میں ریڈیو سنا جاتا تھا ۔
مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کے ایک گھرانے میں اوسطً 6.8 افراد رہائش پذیر تھے یوں ملک میں ریڈیو سامعین کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 12 لاکھ75 ہزار سے زائد تھی۔ جو اُس وقت ملک کی آبادی کا 23.63 فیصد تھی۔ ریڈیو کی سب سے زیادہ لسننگ بلوچستان میں تھی جہاں 39.72 فیصد گھرانوں میں ریڈیو بطور ذریعہ اطلاعات/ معلومات استعمال ہوتا تھا ۔ جبکہ سب سے کم ریڈیو لسننگ پنجاب میں تھی جہاں 18 فیصد گھرانوں میں ریڈیو سنا جاتا تھا۔ ریڈیو کی زیادہ لسننگ کے حوالے سے سندھ 29.75 فیصد گھرانوں کے ساتھ دوسرے اور 27.40 فیصد ریڈیو دوست گھرانوں کے ساتھ صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخوا) تیسرے نمبر پر تھا ۔
دوسرا حوالہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 کے یہ اعدادوشمار ہیں جن کے مطابق پاکستان کے 31.7 فیصد گھرانوں میں ریڈیو موجود تھا اور پاکستان کی 33.5 فیصد آبادی کو ریڈیو سیٹ کی سہولت حاصل تھی ۔ ملک کے دیہی علاقوں کے 33.2 فیصد اور شہری علاقوں کے 28.8 فیصد گھروں میں ریڈیو موجود تھے جبکہ پاکستان کی 35.6 فیصد دیہی اور 29.5فیصد شہری آبادی کے پاس ریڈیو سیٹ موجود تھا ۔
وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ ریڈیو سیٹس بلوچستان کے گھروں میں تھے جہاں 57.4 فیصد گھروں کی ملکیت میں ریڈیو سیٹس تھے ۔ 42.6 فیصد گھروں کے ساتھ خیبر پختونخوا دوسرے اور سندھ 33 فیصد گھروں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا ۔ جبکہ پنجاب کے صرف 27.2 فیصد گھروں میں ریڈیو موجود تھے۔ اسی طرح صوبائی سطح پر سب سے زیادہ آبادی جن کے پاس ریڈیو سیٹس تھے۔ اس کا تعلق بلوچستان سے تھا جہاں 61.6 فیصد آبادی کو یہ سہولت حاصل تھی ۔ خیبر پختونخوا میں 44.7 فیصد اور سندھ میں 35.1 فیصد جبکہ پنجاب میں 28 فیصد آبادی کے پاس ریڈیو تھا ۔
تیسرا حوالہ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی جانب سے 2008 میں پاکستان میں 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میںکئے گئے سروے کے وہ اعداد وشمار ہیں جو ملک میں ریڈیو لسننگ کے موجودہ رجحانات کی منظر کشی کرتے ہوئے ریڈیو کی اہمیت اور افادیت یوں بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کے 28 فیصد شہری اور 31 فیصد دیہی بالغ افراد ریڈیو سنتے ہیں ۔ صوبوں کی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ سب سے زیادہ ریڈیو سامعین کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جہاں 40 فیصد بالغ افراد ریڈیو سنتے ہیں ۔ سندھ میں یہ تناسب 39 فیصد ، بلوچستان میں 38 فیصد اور پنجاب میں 19 فیصد ہے ۔
سروے میں ایک دلچسپ صورتحال جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ پنجاب کے دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں ریڈیو سننے والے بالغ افراد کا تناسب زیادہ ہے ۔ صوبے کے 22 فیصد شہری اور 17 فیصد دیہی افرد ریڈیو سامعین ہیں۔ سروے کے مطابق صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں ریڈیو سامعین کا تناسب ملک کے دیگر دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ جہاں 52 فیصد بالغ افرادریڈیو سننے کا شغف رکھتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں 46 فیصداور خیبر پختونخوا کی 44 فیصد دیہی آبادی ریڈیو کی سامع ہے۔ ملک کے شہری علاقوں پر اگر نظر ڈالیں تو خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں ریڈیو سامعین کا تناسب دیگر صوبوں کے شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں 38 فیصد بالغ شہری ریڈیو سنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سندھ کے شہری علاقے ہیں۔
جہاں ریڈیو سننے والے بالغ افراد کا تناسب 32 فیصد ہے اور بلوچستان کے شہری علاقوں میں بالغ ریڈیو لسنرز کا تناسب 30 فیصد ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ملک میں موبائل پر اور گاڑیوں میں ریڈیو سننے کی سہولت نے ریڈیو لسننگ کو ایک نئی جہت دی ۔ سروے اس حوالے سے بتاتا ہے کہ پاکستان میں30 فیصد بالغ مرد اور 20 فیصد بالغ خواتین موبائل فون پر ریڈیو سنتے ہیں اور اسی طرح 4 فیصدبالغ مرد اور 3 فیصد بالغ خواتین گاڑیوں میں سفر کے دوران ریڈیو سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھروں پر ریڈیو سننے کا تناسب بالغ مردوں میں57 فیصد اور خواتین میں74 فیصد ہے۔
ملک میں ریڈیو سے عوامی دوستی کی اس صورتحال کو کمیونٹی ریڈیو کے ذریعے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ابلاغی سہولیات سے محروم افراد کی ابلاغی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ ایک طرف نجی کمرشل ایف ایم جن کے پیش نظر صرف آمدن کا حصول ہے اور دوسری طرف سرکاری ریڈیو جس پر اپنی آمدن بڑھانے کے لئے ذرائع تلاش کرنے کے دباؤ کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات کی کوریج اور تشہیرکی ذمہ داریاں بھی ہیں ۔
ایسے میں کمیونٹی کی سطح کے عوامی مسائل، انسانی ترقی کے مواقع، امن اور بھائی چارہ کا فروغ، مقامی کلچر اور کمیونٹی کے دیگر امور پر پروگرامزکا سکڑتا حجم اور ان پروگراموں میں عوامی شرکت کا کم ہوتا تناسب کمیونٹی کی سطح پر ایک ابلاغی خلیج پیدا کر رہا ہے جسے صرف کمیونٹی براڈکاسٹنگ/ کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن ہی پُر کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک میںایسے ریڈیو اسٹیشنزاپنا بھر پور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس کا اندازہ یو نیسکو کے ان اعداوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2000 ء سے 2006 ء کے دوران افریقہ کے11 ممالک میں کئے جانے والے سروے کے مطابق کمرشل ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں 360 فیصد جبکہ کمیونٹی ریڈیوز کی تعدا د میں اس عرصہ کے دوران ان ممالک میں1386 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس وقت لاطینی امریکا میں 10 ہزار کمیونٹی ریڈیو کام کر رہے ہیں ۔
اور برازیل میں 10 ہزار کمیونٹی ریڈیو لائسنس کے اجراء کے منتظر ہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں کمیونٹی ریڈیو کی بے پناہ ضرورت ہونے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی نتیجتاً اس خلاء کو پر کرتے ہوئے ملا فضل اللہ کے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم ہر سبق دیر سے پڑھنے کی روش پر گامزن ہیں 48 سال قبل بھارت نے اپنے سرکاری ریڈیو کے ذریعے پاکستان کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کے لیے جس حکمتِ عملی پر کام کیا تھا آج پھر دوبارہ عمل پیرا ھے اس لئے وہ اپنے ریڈیو کو ترقی اور بڑا رہا ھے
بھارت نے 2018میں52 نئے ٹرانسمیٹر اور 49نئے اسٹیشنز قائم کئے
آزاد کشمیر میں ھمارے 4 ٹرانسمیٹر کے مدمقابل مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے 24 ریڈیو اسٹیشن اور41 ٹرانسمیٹر کام کر رہے ہیں
گجرات میں راج کورٹ کے مقام پر 1000کلوواٹ کا DRMٹیکنالوجی کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر کے ساتھ ساتھ 300کلوواٹ کا ایک اور ٹرانسمیٹر نصب کر رکھا ھے
جہاں بھارت شارٹ ویو اور میڈیم ویو ٹرانسمیٹر میں ھم سے آ گے ھے وہاں وہ ھم سے ایف ایم ریڈیو میں بھی ھم سے بہت آ گے ھے ایک اندازے کے مطابق ھمارے پاس 50 اور بھارت کے پاس ھم سے کہیں زیادہ طاقتور 497 ایف ایم ریڈیو موجود ہیں
سوال یہ ہے کہ بھارت اپنے ریڈیو کو ایک کمرے میں محدود کرنے کے بجائے اپنے ریڈیو پر اتنے بھاری اخراجات کیوں کر رہا ھے وہ اتنے طاقتور ترین شارٹ ویو اور میڈیم ویو کے باوجود ایف ایم کا سہارا۔ کیوں لے رہا ھے
بھارتی پالیسی ساز ان زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں جو ریڈیو کو پاکستان میں آج بھی موثر ترین ذریعہ ابلاغ بناتے ھیں یعنی بجلی سے محروم پاکستان کی پانچ کروڑ سے زائد آ بادی
طویل لوڈ شیڈنگ کی شکار دیگر آ بادی سے ابلاغ کرناصرف ریڈیو سے ھی ممکن ھے خاص کر بھارتی بارڈر کے قریب 100 کلومیٹر سے کم وہ علاقے جہاں ریڈیو پاکستان کے سگنلز پوری طاقت سے نہیں پہنچتے کیونکہ قرب و جوار میں کوئی ایے ایم یا ایف ایم ٹرانسمیٹر موجود نہیں اس لیے متعلقہ علاقوں میں ابلاغی خلا ھے جس میں آ سانی سے گھسا جاسکتا ھے معیاری سگنلز اور موسیقی کے ذریعے بھارت اپنا پروپیگنڈا کرسکتا ہے
جتنا طاقتور ایف ایم ٹرانسمیٹر ھوگا اتناصاف طور پر اپنے ریڈیس کے اندر ہر جگہ سنا جائے گا اور اپنے ساتھ قریب کی ایف ایم فریکوئنسیوں پر جب انکی نشریات بند ہو تو بھی سنا جاسکتا ہے اسطرح جس فریکوئنسی پر وہ کام کر رہا ھو گا اس فریکوئنسی پر کام کرنے والے کم طاقت کے ایف ایم پر بھی غالب آ جاتا ھے عموماً ہر ٹرانسمیٹر کی پہنچ 50 کلومیٹر تک ھوتی ھے لیکن اینٹینا کی بلندی میں اصافہ کر کے اسے 10سے 30کلومیٹر تک مزید بڑھا یا جاسکتا ھے۔ اسکے علاوہ اسے باآسانی موبائل فون پر بھی سنا جاسکتا ھے اور ریڈیو سیٹ کی ضرورت نہیں رہتی بھارت سرحد کے قریب کے علاقوں میں پاکستانی ایف ایم کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ھے اس کا زیادہ حدف نوجوان پاکستانی ھوتے ھیں کیونکہ ان کے پاس موبائل سیٹ ھوتے ھیں اور وہ آ سانی کے ساتھ پروپیگنڈہ کا شکار ہو سکتے ھیں بھارت سرحدی علاقوں سے ھٹ کر بھی اپنی صوتی جارحیت کو دیگر علاقوں تک وسیع کر چکا ھے اس کی واضح مثال آ ل انڈیا ریڈیو کی روزانہ ایک گھنٹے کی بلوچی نشریات ھیں جو میڈیم ویو پر دی جارہی ھیں
سوال یہ ھے کہ آ یا ریڈیو پاکستان کے پاس اتنے وسائل ھیں کہ وہ بھارت یا دوسرے دشمن کی صوتی جارحیت کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اسکا جواب منفی ھے
میں روز اول سے اس بات کا حامی ھوں کہ یہ بات نہیں کہنی چاھئے کہ ریڈیو پاکستان خسارے میں ھے
دنیا بھر میں کہیں بھی سرکاری ریڈیو کا کام کمرشل بزنس حاصل کرنا نہیں ھے بی بی سی وائس آف امریکہ ڈوئچے ویلے سی آر آ ئی آل انڈیا ریڈیو وغیرہ کی ترجیحات میں کمرشل بزنس کے حصول میں سرگرم عمل رہنا قطعاً شامل نہیں بلکہ انکی ترجیحات صرف ریاستی ذمداریوں کی ادائیگی ھے اس لئے ان کی مالی ضروریات متعلقہ حکومتیں ادا کرتی ھیں
مجھے یقین کی حد تک یقین ہے کہ ادارے کے ملازمین کی تعداد کم کرنے یا اس کے اثاثہ جات کی فروخت سے کسی بھی ادارے کے خسارے کو ختم نہیں کیا جا سکتا ھے
ادارے کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر روایتی طریقوں سے ھٹ کر ادارے کی آ مدنی بڑھا نے کے لیے سوچنا ھو گا
جو ادارے قومی فرائض کی ادائیگی اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ھوں تو اسکی بقا کے لئے مالی تعاون ٹیکس نہیں امداد باہمی ھے ریڈیو پاکستان بھی لائسنس کی صورت میں امداد باہمی میں قوم کی شرکت کا متمنی ھے