اسلام آباد: عالمی سطح پر مظلوم طبقات کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے تعصب سے بالاتر عالمگیر پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے، ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی امور اورانسانی حقوق کے ماہرین نے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر پاکستان پویلین میں پاتھ فائنڈر گروپ آف کمپنیز اور مارٹن ڈاٶ گروپ کے باہمی اشتراک سے منعقدہ ایک مباحثے سے خطاب کرتے ہوٸے کیا۔
پاکستان کی ممتاز ماہر تعلیم اور کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (KCFR) کی سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر ہما بقائی نے مباحثے کی ادارت کی جبکہ سیگل۔ایسوسی ایٹس کے صدر ڈاکٹر مارک سیگل، چیئرمین کانٹینیوٹی گلوبل جان بلیسیو اور میڈی ایٹرز گروپ کی سی ای او ڈاکٹر سمیعہ خان بابر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستان کے ممتاز قانون دان انور منصور خان بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر بحث میں شریک نہیں ہو سکے تاہم ان کی تقریر ڈاکٹر سمیعہ خان بابر نے حاضرین کو پڑھ کر سنائی۔
مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر ہما بقاٸی نے مظلوم کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ہر بحران کے متاثرین کو مظلوم سمجھا جاتا ہے اور بلاشبہ ان بحرانوں کی اکثریت کے پیچھے جارحیت ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈاکٹر بقاٸی نے غربت کو المی بحرانوں کی بڑی وجہ بھی قرار دیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر سمیعہ خان بابر نے انور منصور خان کی تقریر بعنوان ’’ظلم امن و سلامتی کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے‘‘ پڑھ کر سناٸی جس میں انہوں نے کشمیر اور یوکرین سمیت عالمی بحرانوں کی قانونی حیثیت پر روشنی ڈالی۔
انور منصور کا کہنا تھا کہ “اقوام متحدہ کے قیام کا بنیادی محرکآنے والی نسلوں کو جنگوں سے محفوظ بنانا تھا لیکن ماضی قریب میں ہم نے ویٹو پاور کے حامل مستقل ممبران میں سے ایک کی جانب سے یوکرین کے خلاف جارحیت دیکھی جو اس امر کی غماز ہے کہ اقوام متحدہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہاہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ یمن کی جنگ میں چند طاقتوروں کی آشیرباد سے سعودی عرب ظلم۔کا بازار گرم کر رہاہے جبکہ لیبیا، عراق، کویت اور افغانستان میں تباہی اس جارحیت کی کچھ مثالیں ہیں جس سے عالمی امن کو درہم برہم کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ارکان نے ایسی جنگوں کو باقاعدہ اپنا لیا ہے۔
انور منصور خان نے تنازعہ کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور اس کے ارکان پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد مظلوم اقوام کو ان کے حقوق تک رسائی دینا تھا لیکن یہ خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکا۔ منصور کاکہناتھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948 میں ایک قرارداد 47/1948 منظور کی تھی جس میں جموں و کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا تھا اور بھارت کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے کو مکمل اختیارات کے تحت رائے شماری کا اہتمام کرنے میں ہرممکن مدد فراہم کرے۔ اس قرارداد میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ضمانت دی گٸی تھی لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔
انور منصور نے بھارت کی جانب سے قرارداد کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر اقوام متحدہ کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 1948 سے لے کر اب تک متعدد بار قرارداد پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرائی گئی لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
انور منصور نے کہا کہ اقوام متحدہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف جاری مظالم کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا حوالہ دیتے ہوئے انور منصور نے کہا کہ چارٹر کا ساتواں باب حملہ آور ممالک کے خلاف سخت کارروائی کی نشاندہی کرتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اپنے ویٹو پاور کے ذریعے عالمی ادارے کو بلیک میل کرتے ہیں۔
انور منصور نےمطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ فوری طور پر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے بصورت دیگر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف امن کو درہم برہم کر سکتی ہے بلکہ جنگ کے نتیجے میں ایک بڑے بحران کو جنم ے سکتی ہے۔
اس موقع پرکشمیر کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ہما بقائی کاکہنا تھا کہ کشمیر دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان ایک اہم تنازعہ ہے اور خطے میں شدید کشیدگی کے پیش نظر اس کا حل انتہائی ضروری ہے۔ ڈاکٹر ہما نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ہندوستانی علاقہ قرار دینے کے بعد وہاں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ہندوؤں کو وادی میں آباد کیا جارہا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہما بقائی نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت دونوں کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ دونوں ممالک اس سلسلے میں اپنی استطاعت سے زیادہ فوجی طاقت پر خرچ کر رہے ہیں۔ بقائی نے اپنے اختتامی بیان میں کہا، ’’جیسا کہ معروف ہندوستانی مصنفہ اروندھتی رائے نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو ہندوستان سے آزادی کی ضرورت نہیں بلکہ ہندوستان کو کشمیر سے آزادی کی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر ہما بقائی نے روس یوکرین جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی یوکرین کے عوام کی حالت زار کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ 40 سالوں سے اپنے پڑوس میں افغان بحران کی عملی مثال دیکھ رہے ہیں۔
اس موقع پر بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر انسانی حقوق ڈاکٹر مارک سیگل کاکہناتھا کہ مظلوم طبقات کی آزادی کا خواب حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتا۔ مارک سیگل نے حال ہی میں مالڈووا میں یوکرین کے متاثرین اور اس سے قبل افغان مہاجرین کے لیے اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ان بحرانوں کے درمیان ہم اپنے تعصبات کو نظر انداز نہیں کرتے۔” سیگل نے کہا کہ دنیا یوکرین کے لوگوں کی حمایت میں سامنے آئی اور انہیں مظلوم قرار دیا لیکن ان مغربی لوگوں نے کبھی چیچنیا، جارجیا میں کیے گٸے مظالم پر یوں آواز نہیں اٹھاٸی۔ انسانی حقوق سے متعلق ایک کمیٹی کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے، سیگل نے انکشاف کیا کہ جب اس نے کمیٹی کی طرف سے کی جانے والی ترامیم کو اسلامی عقائد سے متصادم قرار دیتے ہوئے اعتراض کیا تو اسے فاشسٹ کے طور پر لیا گیا۔ انہوں نے دنیا بھر کے مظلوم لوگوں پر غلبہ پانے کے لیے مغربی طاقتوں کے رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر جان ڈی بلاسیو نے کہا کہ مظلوم عوام کی آزادی کا تصور بہت خوش کن ہے لیکن اسکی کامل تکمیل پریقین نہیں کیاجا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور تنازعات کے حل میں بڑی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
مباحثے کے اختتام پر ڈاکٹر ہما بقائی اور دیگر شرکا نے چیئرمین پاتھ فائنڈر گروپ آف کمپنیز اور کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز اکرام سہگل اور ان کی ٹیم کو ایسے مکالموں کی مسلسل ترویج پر خراجبتحسین پیش کیا۔