سندھ کی ’جیجی‘ زرینہ بلوچ
سندھی گلوکارہ زرینہ بلوچ کا انتقال 25اکتوبر 2005ء کو کراچی میں ہوا۔ وہ دسمبر1934ء کو حیدرآباد کے نواحی گوٹھ الٰہ داد میں پیدا ہوئی تھیں۔بچپن ہی سے آواز بہت سُریلی تھی۔والد نے بھی اس اُڑتی گاتی چڑیا کے پر نہیں کاٹے۔زرینہ گانے کے مقابلوں میں حصہ لیتی، آگے بڑھتی ریڈیو پاکستان تک جا پہنچی۔اُستاد جمن نے ہونہار زرینہ کو اپنی شاگردی میں لے لیا۔1960ء ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ایک مقابلہ کروایا جس میں لگ بھگ 600گلوکار شریک ہوئے۔ زرینہ بلوچ نے اس مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا۔بعدازاں انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیےبھی گیت گائے اور ڈراموں میں اداکاری کی۔تاہم اُن کا فن صرف گلوکاری اور اداکاری تک محدود نہیں تھا۔وہ ایک ادیب ، دانشوراور سرگرم سیاسی کارکن بھی تھیں۔زرینہ بلوچ نے 1964ءمیں عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو سے شادی کی۔ انہوں نے ایوب خان کے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھر پور حصہ لیاجبکہضیا دور میں بھٹو بچاؤ تحریک میں انہوں نے دو سال قید کاٹی۔سندھی اور بلوچی زبانوں میں اُن کے گائے ہوئے گیت یکساں مقبول تھے۔زرینہ بلوچ نے شیخ ایاز، استاد بخاری اور تنویر عباسی کے لکھے ہوئے بہتسے گیت گائے۔بلوچی شاعر گل خان نصیر کی شاعری کے علاوہ فیض احمد فیض اور احمد فرازکی اُردو شاعری بھی گائی۔سرائیکی میں بھی اُن کے گانے مقبول ہوئے۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہیں پرائیڈآف پرفارمنس دیا گیا۔اس کے علاوہ انہیں ملنے والے اعزازات میں شاہ لطیف ایوارڈ، سچل اور قلندرلعل شہباز ایوارڈبھی شامل ہیں۔زرینہ بلوچ نے قومی گیت گا کر سندھ کی قومی تحریکوں میں جوش پیدا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے سیاسی اور ادبی حلقوں میں انہیں “جیجی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔